MuHaB'BaT By MaNo

, by Unknown

MuHaB'BaT By MaNo


MuHaB'BaT By MaNo

MuHaB'BaT By MaNo



پہلے ایسے سوالات بہت کم ہوتے تھے مگر اب زیادہ ہو گئے ہیں۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ بلاگ کیوں لکھتے ہیں؟ اس کے علاوہ اکثر دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اردو سے اتنی محبت کیوں ہے؟ اکثر میرا جواب صرف یہ ہوتا ہے کہ اس ”کیوں“ کا جواب بہت تفصیل طلب ہے اس لئے اس موضوع کو نہ چھیڑیں۔ مزید اگر کوئی ضد کرے تو پھر پہلے سوال کا مختصر جواب یہ ہوتا ہے کہ میں بلاگ نہیں لکھتا بلکہ آپ لوگ زبردستی لکھواتے ہو۔ دوسرے کا جواب یہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں مجھے اردو سے محبت ہے یا نہیں مگر مجھے آپ سے محبت ضرور ہے۔ آپس کی بات ہے کہ صنف کی تمیز کیے بغیر میں یہ جواب دے دیتا ہوں۔ :-D اس لئے صنف نازک ایسے سوال ہرگز نہ کیا کریں، خاص طور پر اردو سے محبت والا سوال کرنے سے ایسے پرہیز کریں جیسے اپنی اصل عمر بتانے سے پرہیز کرتی ہیں۔ البتہ کسی کو اپنے چاہنے والے بڑھانے یا میری طرف سے اظہارِ محبت کا ثبوت چاہیئے تو ایسے سوال کر لے۔ خیال رہے انسان کی سوچ تبدیل ہوتی رہتی ہے، ہو سکتا ہے کہ کل کو میری سوچ تبدیل ہو جائے اور میں کسی دوسرے جواب سے نواز دوں۔ اس لئے علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ :-D
بہرحال کئی لوگ مختصر جواب پر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن کئی وضاحت مانگتے ہیں۔ ان جوابات کی وضاحت کچھ یوں ہے۔ میں بلاگ اس لئے لکھتا ہوں کیونکہ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں کیوں لکھنا چاہتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اردگرد کے ماحول سے اثر لیتا ہے۔ اب میرے اردگرد آپ لوگ ہیں تو جب آپ لوگ کچھ بولتے، پریشان ہوتے، سوال کرتے یا کچھ بھی کرتے ہیں تو میں اس سے اثر لیتا ہوں۔ ردعمل کے طور پر کبھی صرف سوچتا ہوں، کبھی میرا دماغ اس بات کو لاشعور میں پھینک دیتا ہے اور جب کبھی اپنے اردگرد کے ماحول کی وجہ سے میں کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہو تو میں بولتا ہوں، میں لکھتا ہوں اور اپنی بات بذریعہ بلاگ آپ تک پہنچا دیتا ہوں۔ یہ میرا بلاگ لکھنا تو کیا، ہر کسی کا بلاگ لکھنا صرف اور صرف اردگرد کے ماحول کی بنیاد پر ہے۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب ہر کوئی ماحول کی وجہ سے بلاگ کیوں نہیں لکھتا۔ وہ کیا ہے کہ سیانے کہتے ہیں ہر کسی کا اثر لینے اور بات کہنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ مجھے بلاگ کے انداز میں بات کہنا اچھا لگتا ہے تو میں اس انداز میں کہہ دیتا ہوں اور کسی کو دوسرا انداز پسند ہے تو وہ اس انداز میں کہتا ہے۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ انسان اردگرد کے ماحول سے اثر لیتا ہے۔ میرے اردگرد آپ لوگ ہیں لہٰذا آپ سے اثر لیتا ہوں اور اپنی بات بذریعہ بلاگ کہہ دیتا ہوں۔ یوں میرے بلاگ لکھنے کی وجہ آپ ہیں۔ اگر اللہ نہ کرے کہ آپ چپ ہوں تو میں بھی چپ ہو جاؤں گا اور پھر میرا بلاگ بھی چپ۔
رہی بات اردو سے محبت کی تو مجھے اردو سے محبت ہے یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا البتہ میں کبھی کبھی یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ انسان ہونے کے ناطے مجھے اپنے اردگرد کے انسانوں سے محبت ہے۔ اب میرے اردگرد تو آپ لوگ ہے لہٰذا مجھے آپ لوگوں سے محبت ہے۔ انسانیت اور محبت کا یہی تقاضا ہے کہ آپ لوگوں کی ضروریات پوری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لئے جو میرے اختیار میں ہو وہ مجھے کرنا چاہیئے۔ اب آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ کسی انسان کی سب سے پہلی ضرورت اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے۔ اس کے بعد ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ بچہ رو کر ماں کو اپنا پیغام پہنچاتا ہے تو ماں اسے دودھ دیتی ہے۔ کوئی اشارہ کر کے، کوئی بول کر اور کوئی لکھ کر اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ مختلف جگہوں پر طریقہ مختلف ہو سکتا ہے مگر ہر بات پیغام پہنچانے سے ہی شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ ہماری پیغام پہنچانے والی پہلی ضرورت سب سے آسانی سے اردو کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے۔ لہٰذا میں اپنے لوگوں کی پہلی ضرورت پوری کرنے کے لئے جہاں تک ہو سکے آسانیاں پیدا کر رہا ہوں تاکہ یہ آسانی سے بول یا لکھ کر اپنا پیغام دوسروں تک پہنچا سکیں۔ اسی پیغام پہنچانے سے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اسی سے معاشرہ شعور کی منازل طہ کرتا ہے۔ اسی سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ مجھے اردو سے محبت ہو مگر میں نہیں جانتا۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ میرا آپ سے ایک تعلق ہے۔ آپ میرے اردگرد کے ماحول سے ہو۔ مجھے آپ کے ساتھ چلنا ہے۔ آپ سے بات کرنی ہے۔ کبھی اپنی سنانی ہے اور کبھی آپ کی سننی ہے کیونکہ یہ میری اور آپ کی پہلی ضرورت ہے۔ ہماری یہ پہلی ضرورت سب سے آسانی سے اردو میں ممکن ہے اور میں اس پہلی ضرورت کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں ہوں۔ اگر اس سب کی بنیاد پر آپ یہ کہتے ہو کہ مجھے اردو سے محبت ہے تو پھر میں کہتا ہوں کہ ہاں مجھے اردو سے محبت ہے کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے۔

0 comments:

Post a Comment

Thanks For Ur Feed Back

ADaB SaHaB Ki JaWaN LarKiYaan By MaNo

, by Unknown

ADaB SaHaB Ki JaWaN LarKiYaan By MaNo






اپنے جناب ”ادب“ صاحب کی دو جوان ”اصنافِ نازک“ ہیں۔ دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں اور اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ ہمارے لئے دونوں ہی نہایت قابلِ احترام ہیں۔ ویسے تو ہمیں دونوں سے ہی محبت ہے، لیکن بڑی سے تھوڑی دوستی بھی ہے۔ بڑی ذہین ہے اور ہر وقت کام کاج میں مصروف رہتی ہے۔ جب گفتگو کرے تو لمبی چوڑی باتوں سے کوئی خاص گریز نہیں کرتی۔ گو کہ اس میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن اتنی آسانی سے رومانوی نہیں ہوتی۔ خیر چھوٹی کے تو کیا ہی کہنے۔ وہ کوزے میں دریا تو بند کرتی ہے مگر عموماً ساتھ ابہام بھی بھر دیتی ہے۔ قدم بعد میں اٹھاتی ہے اور رومان کی دنیا پہلے بساتی ہے۔ پلو مار کر ایسے دیا بجھاتی ہے کہ اکثر اوقات اس کی باتیں نوجوان سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ خدا کی شان بیان کر رہی ہے یا اپنے عاشقوں کی۔ شاید انہیں مغالطوں کی وجہ سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اکثر لڑکے چھوٹی پر فدا ہو جاتے ہیں۔ اس میں نوجوانوں کا اتنا قصور بھی نہیں۔ وہ کیا ہے کہ ایک تو چھوٹی کی حرکتیں اور اوپر سے بھری جوانی۔ اس کی چال پر نظریں ٹھہر جائیں اور دل پر بجلیاں گریں۔ زلفیں بکھیرے تو گھٹائیں چھا جائیں۔ نینوں کے تیر اچھے اچھوں کا دل چیر دیں۔ اس کی مسکراہٹ سے چمن مہک اٹھے۔ بولے تو سُر بکھیرے اور چال ڈھال ایسی کہ نوجوان تو کیا بزرگ بھی فدا ہو جائیں۔ بلکہ نوجوانوں سے زیادہ تو بزرگ اس کے عاشق ہیں۔ جبھی تو بیچ چوراہے اس کا دامن تھام لیتے ہیں۔
جس طرح ہمارے معاشرے میں عموماً چھوٹی بیٹی ہی لاڈلی ہوتی ہے، بلکل ایسے ہی یہاں بھی چھوٹی ہی ادب صاحب کی چہیتی ٹھہری۔ اس کا جب اور جو دل چاہے وہ کر لیتی ہے۔ کئی دفعہ تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ چھوٹی ادب صاحب کے قابو میں ہی نہیں۔ خود اندازہ کریں کہ چھوٹی نے ہر وقت جام اپنے پہلو میں دھرا ہوتا ہے۔ شراب تو کیا، ساقی سے ہی یاری لگا رکھی ہے۔ چھوٹی کا حال تو یہ ہے کہ اس کا جو دل کرے وہ لفظ استعمال کرتی ہے اور جہاں چاہے بات ادھوری چھوڑ دے۔اس کے باوجود بھی چھوٹی کو سب معاف ہے۔ دنیا اسی کی عاشق ہے اور لوگ اس کی باتوں پر ”واہ واہ“ کرتے ہیں۔ دوسری طرف بڑی بات کرتے ہوئے، اگر شراب کا استعارہ یا تشبیہ بھی استعمال کرے تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔ اگر دوٹوک اور درست الفاظ نہ بولے تو لوگوں کو الجھن ہونے لگتی ہے۔ بڑی پلو مار کر دیا نہیں بجھاتی بلکہ ہر بات کھول کھول کر بیان کرتی ہے۔ جب دل سے بولے تو ایسے لگتا ہے کہ موتی جھڑ رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ آج کل لوگ اسے کھل کر بولنے ہی نہیں دیتے۔
”ادب صاحب“ کی بڑی ”صنفِ نازک“ یعنی نثر کئی ایک کی پرورش کر رہی ہے، جیسے مضمون، کہانی، افسانہ، خاکہ اور ناول وغیرہ۔ اور چھوٹی ”صنف نازک“ شاعری نے نظم، غزل اور ہائیکو وغیرہ کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ چھوٹی اپنے دل کی بات ایک چھوٹے سے شعر میں کہہ کر چاہے آسمان سے جا ٹکرائے یا زمین پھاڑ دے، تب بھی کئی دفعہ اس کی غیر واضح باتوں کی وجہ سے بخشش کے راستے نکل آتے ہیں۔ اور تو اور عام بندہ جو کچھ سوچنے سے بھی ڈرتا ہے، وہی بات چھوٹی بڑی آسانی سے کہہ جاتی ہے اور تب بھی اس کی پکڑ آسانی سے نہیں ہوتی۔ کوزے میں دریا بند کرنے کا تو یہ حال ہے کہ اک مصرع میں سما جائے سارا جہاں۔ دوسری طرف نثر کی باتیں عموماً واضح ہوتی ہیں، اس لئے اگر نثر کچھ غلط کہہ جائے تو اس کے بچ نکلنے کے راستے بہت محدود ہوتے ہیں۔
عام لوگ بھی کافی عجیب ہیں۔ اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو شاعری کو اپنا لیتے ہیں اور اگر کسی کے دماغ کا دہی بنانا ہو تو نثر کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ویسے اپنی یاری تو ادب صاحب کی بڑی صاحبزادی نثر سے ہے۔ وہ کیا ہے کہ سیدھی سادی ہے اور آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ ہمیں جب بھی کوئی کام ہوتا ہے تو بیچاری دوڑی چلی آتی ہے اور خود ہی سارے کام کر دیتی ہے۔ تابع دار تو بہت ہے، لیکن ہمیں اس سے کچھ شکوے بھی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ زیادہ ”فری“ نہیں ہوتی۔ ذرا سی بات کیا کریں،اسے ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہم دل کی بھڑاس نکالنے کا سوچ رہے ہیں اور یہ فوراً شور مچا دیتی ہے۔ اپنے دکھ کیا سنائیں، یہ تو اسی وقت سب کے سامنے کہہ دیتی ہے کہ دیکھو! اپنے دل کے پھپھولے نہ پھوڑو۔ پتہ نہیں اسے کیا ہے؟ ہمارے ساتھ ذرا بھی رومانوی نہیں ہوتی۔ ہمارے سامنے تواکثر ڈرتی اور شرماتی ہی رہتی ہے۔ ذرا سی دل لگی کیا کریں، آگے سے فوراً کہتی ہے کہ کچھ خیال کرو، لوگ کیا کہیں گے۔ تھوڑا مان دعوی جتا کر کچھ کہہ بھی دیں تو یہ پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹ دیتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں معمولی سی بات کیا کریں، یہ تو منہ پر دے مارتی ہے کہ اب تم اپنی تعریف خود کر رہے ہو۔ لگتا ہے کہ یہ ہمیں انسان کی بجائے فرشتہ بنانے پر تُلی ہے۔ بہرحال کبھی نہ کبھی تو اسے سمجھ آ ہی جائے گی کہ ہم بھی انسان ہیں اور دل رکھتے ہیں۔ خیر جیسی بھی ہے لیکن اپنی تو فی الحال اسی سے یاری ہے۔ چلو مکمل نہ سہی مگر بین السطور اپنے دل کی بات کہہ ہی لیتے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ آج کل ادب صاحب کی چھوٹی صاحبزادی شاعری سے ”آنکھ مٹکا“ بھی چلا رکھا ہے۔ اول تو سوچا کہ جب نثر کو اس بات کا علم ہو گا تو شاید پھر ہی ہم پر مہربان ہو جائے۔ دوسرا شاعری کے بڑے فائدہ ہیں۔ اس سے چاہے دل لگی کریں یا اس کے ذریعے دنیا سے شکوے، اپنی تعریف کریں یا دوسروں کو خوار، کسی بھی صورت میں یہ نثر کی طرح فوراً ہی عزت کا جنازہ نہیں نکالتی۔ بے شک شاعری آپ کا راز خواص کے کانوں میں چپکے سے بتا دے مگر بات شہرِ محبت سے باہر نہیں جاتی اور اگر جائے بھی تو شاعری سارا الزام اپنے سر لے لیتی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ شاعری آسانی سے پلو تک چھونے نہیں دیتی لیکن ہمیں اس کے پلو سے غرض بھی نہیں۔ ہم تو اس کے اِدھر اُدھر گھومتے شعروں کے ذریعے ہی حالِ دل سنا لیتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہے لیکن ادب صاحب کی دونوں صاحبزادیاں، ہیں بڑی خوبصورت اور دونوں اپنا اپنا الگ ہی مقام رکھتی ہیں۔

0 comments:

Post a Comment

Thanks For Ur Feed Back

Online Users


Live Traffic Stats